اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک خصوصی مندوب کا کہنا ہے نسل پرستی، سماجی اور معاشی عدم مساوات امریکہ کو ان امریکی تصورات سے دور کر رہے ہیں جن میں اجتماع کے آزادی اور تنظیم جیسےحقوق کا شمار ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب مائنا کیائی نے امریکہ (میں انسانی حقوق کی) صورت حال کا جائزے لینے کے لیے اپنے 17 روزہ دورے کے بارے میں جمعرات کو تفصلات سے آگاہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے بالٹی مور، واشنگٹن، نیویارک اور فلاڈیلفیا سمیت کئی بڑے شہروں کا دورہ کیا۔
کیائی نے کہا کہ "اس وقت (وہاں امریکہ میں) لوگوں کے پاس ناراض اور مایوس ہونے کی وجوہات ہیں"۔
انہوں نے کہا اس دورے کے دوران ان کے لیے نسلی معاملات کا جائزہ شامل نہیں تھاتاہم انہوں نے کہا کہ ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے دورہ امریکہ کے دوران نسل سے متعلق معاملات سے صرف نظر کرتے۔
کیائی نے کہا کہ نسل پرستی کو سمجھنے کے لیے امریکہ کی چار سو سالہ تاریخ کو مدنظر رکھنا ہوگا جس میں غلامی اور افریقی امریکیوں کو قانونی طور پر علیحدہ رکھا گیا جس دوران لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو "مشکلات، غربت اور ظلم و ستم" کا سامنا کرنا
پڑا۔
اب جبکہ کہ غلامی کو ختم ہوئے طویل عرصہ ہو گیا اور (لوگوں) کو الگ تھلگ رکھنا غیر قانونی ہے، کیائی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں امتیازی سلوک کا اب انداز بدل گیا ہے اور یہ اب "منشیات کے خلاف جنگ" اور عادی مجرموں سے متعلق قانون" کے تحت سزا دینے کی پالیسوں کے پردے میں چھپ گیا ہے جس میں معمولی جرائم میں بھی طویل عرصے کی قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے افریقی امریکیوں کے لیے نوکری اور اچھی رہائش تلاش کرنے کی راہ میں مشکلات حائل ہیں۔
"ان ناانصافیوں کی وجہ سے سیاہ فام برادری میں غصے کے جواز کی وجہ سے، ' سیاہ فام زندگیوں کی اہمیت' نامی تحریک نے جنم لیا اور نوجوان سیاہ فام افراد کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی وجہ سے اس تحریک میں تیزی آئی ہے۔"
انہوں نے امریکہ میں تارکین وطن کارکنوں کو درپیش صورت حال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کو استحصال کا سامنا ہے اور وہ کسی ممکنہ ردعمل کی وجہ سے اپنے کام کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے ہیں۔
تاہم کیائی نے کہا کہ امریکی ایک تگ و دو کرنے اور ایک مشکل حالات سے نمٹنے کی کے صلاحیت رکھنے والی قوم ہے اور اس کی سول سوسائٹی ملک کی ایک بڑی طاقت ہے۔